’’دس بجے‘‘ ’’اب کیا کررہے تھے؟‘‘ ’’میز پر لیٹا آپ کی آواز سے آپ کی تصویر بنا رہا تھا‘‘ ’’بنی؟‘‘ ’’جی نہیں‘‘ ’’بنانے کی کوشش نہ کیجیے۔۔۔۔۔۔ میں بڑی بد صورت ہوں۔‘‘ ’’معاف کیجیے گا، اگر آپ واقعی بد صورت ہیں تو ٹیلی فون بند کردیجیے، بدصورتی سے مجھے نفرت ہے۔‘‘ آواز مسکرائی’’ ایسا ہے تو چلیے میں خوبصورت ہوں، میں آپ کے دل میں نفرت نہیں پیدا کرنا چاہتی۔‘‘ تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ من موہن نے پوچھا’’ کچھ سوچنے لگیں؟‘‘ آواز چونکی’’ جی نہیں۔۔۔۔۔۔ میں آپ سے پوچھنے والی تھی کہ۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’سوچ لیجیے اچھی طرح‘‘ آواز ہنس پڑی۔’’ آپ کو گانا سناؤں؟‘‘ ’’ضرور‘‘ ’’ٹھہرئیے‘‘ گلہ صاف کرنے کی آواز آئی۔ پھر غالب کی یہ غزل شروع ہوئی نکتہ چیں ہے غمِ دل۔۔۔۔۔۔ سہگل والی نئی دھن تھی۔ آواز میں درد اور خلوص تھا۔ جب غزل ختم ہوئی تو من موہن نے داد دی۔ ’’بہت خوب۔۔۔۔۔۔ زندہ رہو۔‘‘ آواز شرما گئی۔’’شکریہ‘‘ اور ٹیلی فون بند کردیا۔ دفتر کے بڑے میز پر من موہن کے دل و دماغ میں ساری رات غالب کی غزل گونجتی رہی۔ صبح جلدی اٹھا اور ٹیلی فون کا انتظار کرنے لگے۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے کرسی پر بیٹھا رہا مگر ٹیلی فون کی گھنٹی نہ بجی۔ جب مایوس ہو گیا تو ایک عجیب سی تلخی اس نے اپنے حلق میں محسوس کی اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ اس کے بعد میز پر لیٹ گیا اور کڑھنے لگا۔ وہی کتاب جس کو وہ متعدد مرتبہ پڑھ چکا تھا اٹھائی اور ورق گردانی شروع کردی۔ یونہی لیٹے لیٹے شام ہوگئی۔ تقریباً سات بجے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ من موہن نے ریسیور اٹھایا اور تیزی سے پوچھا کون ہے؟‘‘ وہی آواز آئی’’میں!‘‘ من موہن کا لہجہ تیز رہا’’ اتنی دیر تم کہاں تھیں‘‘ آواز لرزی’’کیوں؟‘‘ ’’میں صبح سے یہاں جھک مار رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ ناشتہ کیا ہے نہ دوپہر کا کھانا کھایا ہے حالانکہ میرے پاس پیسے موجود تھے۔‘‘ آواز آئی’’ میری جب مرضی ہوگی ٹیلی فون کروں گی۔۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔۔‘‘ من موہن نے بات کاٹ کر کہا۔’’ دیکھو جی یہ سلسلہ بند کرو۔ ٹیلی فون کرنا ہے تو ایک وقت مقرر کرو۔ مجھ سے انتظار برداشت نہیں ہوتا۔‘‘ آواز مسکرائی۔’’ آج کی معافی چاہتی ہوں۔ کل سے باقاعدہ صبح اور شام فون آیا کرے گا آپ کو‘‘ ’’یہ ٹھیک ہے!‘‘ آواز ہنسی’’ مجھے معلوم نہیں تھا آپ اس قدر بگڑے دل ہیں۔‘‘ من موہن مسکرایا۔’’ معاف کرنا۔ انتظار سے مجھے بہت کوفت ہوتی ہے اور جب مجھے کسی بات سے کوفت ہوتی ہے تو اپنے آپ کو سزا دینا شروع کردیتا ہوں۔‘‘ ’’وہ کیسے؟‘‘ ’’صبح تمہارا ٹیلی فون نہ آیا۔۔۔۔۔۔چاہیے تو یہ تھا کہ میں چلا جاتا۔۔۔۔۔۔ لیکن بیٹھا دن بھر اندر ہی اندر کڑھتا رہا۔ بچپنا ہے صاف۔‘‘ آواز ہمدردی میں ڈوب گئی’’ کاش مجھ سے یہ غلطی نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔ میں نے قصداً صبح ٹیلی فون نہ کیا!‘‘ ’’کیوں؟‘‘ ’’یہ معلوم کرنے کے لیے آپ انتظار کریں گے یا نہیں؟‘‘ من موہن ہنسا۔’’ بہت شریر ہو تم۔۔۔۔۔۔ اچھا اب ٹیلی فون بند کرو۔ میں کھانا کھانے جارہا ہوں۔‘‘ ’’بہتر کب تک لوٹیے گا؟‘‘ ’’آدھے گھنٹے تک‘‘ من موہن آدھے گھنٹے کے بعد کھانا کھا کر لوٹا تو اس نے فون کیا۔ دیر تک دونوں باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد اس نے غالب کی ایک غزل سنائی۔ من موہن نے دل سے داد دی۔ پھر ٹیلی فون کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اب ہر روز صبح اور شام من موہن کو اس کا ٹیلی فون آتا۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی وہ ٹیلی فون کی طرف لپکا۔ بعض اوقات گھنٹوں باتیں جاری رہتیں۔ اس دوران میں من موہن نے اس سے ٹیلی فون کا نمبر پوچھا نہ اس کا نام شروع شروع میں اس نے اس کی آواز کی مدد سے تخیل کے پردے پر اس کی تصویر کھینچنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اب وہ جیسے آواز ہی سے مطمئن ہوگیا تھا۔ آوازہی شکل تھی۔ آواز ہی صورت تھی۔ آواز ہی جسم تھا۔ آواز ہی روح تھی۔ ایک دن اس نے پوچھا۔’’موہن۔تم میرا نام کیوں نہیں پوچھتے؟‘‘ من موہن نے مسکرا کر کہا۔’’ تمہارا نام تمہاری آواز ہے۔‘‘ ’’جو کہ بہت مترنم ہے۔‘‘ ’’ اس میں کیا شک ہے؟‘‘ ایک دن وہ بڑا ٹیڑھا سوال کر بیٹھی۔’’موہن تم نے کبھی کسی لڑکی سے محبت کی ہے؟‘‘ من موہن نے جواب دیا۔’’ نہیں‘‘ ’’کیوں؟‘‘ موہن ایک دم اداس ہوگیا’’ اس کیوں کا جواب چند لفظوں میں نہیں دے سکتا۔ مجھے اپنی زندگی کا سارا ملبہ اٹھانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی جواب نہ ملے تو بڑی کوفت ہوگی۔‘‘ ’’جانے دیجیے۔‘‘ ٹیلی فون کا رشتہ قائم ہوئے تقریباً ایک مہینہ ہوگیا۔ بلاناغہ دن میں دو مرتبہ اس کا فون آتا۔ من موہن کو اپنے دوست کا خط آیا کہ قرضے کا بندوبست ہوگیا ہے۔ سات آٹھ روز میں وہ بمبئی پہنچنے والا ہے۔ من موہن یہ خط پڑھ کر افسردہ ہوگیا۔ اس کا ٹیلیفون آیا تو من موہن نے اس سے کہا میری دفتر کی بادشاہی اب چند دنوں کی مہمان ہے۔ اس نے پوچھا۔’’کیوں؟‘‘ من موہن نے جواب دیا۔’’ قرضے کا بندوبست ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔ دفتر آباد ہونے والا ہے۔‘‘ ’’تمہارے کسی اور دوست کے گھر میں ٹیلی فون نہیں۔‘‘ ’’کئی دوست ہیں جن کے ٹیلی فون ہیں۔ مگر میں تمہیں ان کا نمبر نہیں دے سکتا۔‘‘ ’’کیوں؟‘‘ ’’میں نہیں چاہتا تمہاری آواز کوئی اور سنے۔‘‘ ’’وجہ؟‘‘ ’’میں بہت حاسد ہوں۔‘‘ ’’وہ مسکرائی۔ یہ تو بڑی مصیبت ہوئی۔‘‘ ’’ کیا کیا جائے؟‘‘ ’’آخری دن جب تمہاری بادشاہت ختم ہونے والی ہو گی۔ میں تمہیں اپنا نمبر دوں گی۔ ’’یہ ٹھیک ہے!‘‘ من موہن کی ساری افسردگی دور ہوگئی۔ وہ اس دن کا انتظار کرنے لگا کہ دفتر میں اسکی بادشاہت ختم ہو۔ اب پھر اس نے اسکی آواز کی مدد سے اپنے تخیل کے پردے پر اس کی تصویر کھینچنے کی کوشش شروع کی۔ کئی تصویریں بنیں مگر وہ مطمئن نہ ہوا۔ اس نے سوچا چند دنوں کی بات ہے۔ اس نے ٹیلی فون نمبر بتا دیا تووہ اسے دیکھ بھی سکے گا۔ اس کا خیال آتے ہی اس کا دل و دماغ سُن ہوجاتا۔ ’’ میری زندگی کا وہ لمحہ کتنا بڑا لمحہ ہوگا جب میں اسکو دیکھوں گا۔‘‘ دوسرے روز جب اس کا ٹیلی فون آیا تو من موہن نے اس سے کہا۔’’ تمہیں دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوگیا ہے۔‘‘ ’’کیوں؟‘‘ ’’تم نے کہا تھا کہ آخری دن جب یہاں میری بادشاہت ختم ہونے والی ہوگی تو تم مجھے اپنا نمبر بتا دوگی۔‘‘ ’’کہا تھا‘‘ ’’اس کا یہ مطلب ہے تم مجھے اپنا ایڈریس دیدو گی۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں دیکھ سکوں گا۔‘‘ ’’تم مجھے جب چاہو دیکھ سکتے ہو۔۔۔۔۔۔ آج ہی دیکھ لو۔‘‘ نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔ پھر کچھ سوچ کر کہا۔’’ میں ذرا اچھے لباس میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ آج ہی ایک دوست سے کہہ رہا ہوں۔ وہ مجھے سوٹ دلوا دے گا۔‘‘ وہ ہنس پڑی۔’’ بالکل بچے ہو تم۔۔۔ سنو۔ جب تم مجھ سے ملو گے تو میں تمہیں ایک تحفہ دوں گی۔‘‘ من موہن نے جذباتی انداز میں کہا’’ تمہاری ملاقات سے بڑھ کر اور کیا تحفہ ہوسکتا ہے؟‘‘ ’’میں نے تمہارے لیے ایگزکٹا کیمرہ خرید لیا ہے۔‘‘ ’’اوہ!‘‘ ’’اس شرط پر دوں گی کہ پہلے میرا فوٹو اتارو۔‘‘ من موہن مسکرایا۔’’اس شرط کا فیصلہ ملاقات پر کروں گا۔‘‘ تھوڑی دیر اور گفتگوہوئی اس کے بعد ادھر سے وہ بولی’’ میں کل اور پرسوں تمہیں ٹیلی فون نہیں کرسکوں گی۔‘‘ من موہن نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔’’کیوں؟‘‘ ’’میں اپنے عزیزوں کے ساتھ کہیں باہر جارہی ہوں۔ صرف دو دن غیر حاضر رہوں گی۔ مجھے معاف کردینا۔‘‘ یہ سننے کے بعد من موہن سارا دن دفتر ہی میں رہا۔ دوسرے دن صبح اٹھا تو اس نے حرارت محسوس کی ۔ سوچا کہ یہ اضمحلال شاید اس لیے ہے کہ اس کا ٹیلی فون نہیں آئیگا لیکن دوپہر تک حرارت تیز ہوگئی۔ بدن تپنے لگا۔ آنکھوں سے شرارے پھوٹنے لگے۔ من موہن میز پر لیٹ گیا۔ پیاس بار بارستاتی تھی۔ اٹھتا اور نل سے منہ لگا کر پانی پیتا۔شام کے قریب اسے اپنے سینے پر بوجھ محسوس ہونے لگا۔ دوسرے روز وہ بالکل نڈھال تھا۔ سانس بڑی دقت سے آتا تھا۔ سینے کی دکھن بہت بڑھ گئی تھی۔ کئی بار اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہوئی۔ بخار کی شدت میں وہ گھنٹوں ٹیلی فون پر اپنی محبوب آواز کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ شام کو اسکی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس نے کلاک کی طرف دیکھا، اس کے کانوں میں عجیب و غریب آوازیں گونج رہی تھیں۔ جیسے ہزار ہا ٹیلی فون بول رہے ہیں سینے میں گھنگھرو بج رہے تھے۔ چاروں طرف آوازیں ہی آوازیں تھیں۔ چنانچہ جب ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو اس کے کانوں تک اس کی آواز نہ پہنچی۔ بہت دیر تک گھنٹی بجتی رہی۔ ایک دم من موہن چونکا۔ اس کے کان اب سُن رہے تھے۔ لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور ٹیلی فون تک گیا۔ دیوار کا سہارالے کر اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ریسیور اٹھایا اور خشک ہونٹوں پر لڑکی جیسی زبان پھیر کر کہا۔’’ہلو‘‘ دوسری طرف سے وہ لڑکی بول۔’’ہلو۔۔۔۔۔۔ موہن؟‘‘ من موہن کی آواز لڑکھڑائی۔’’ہاں موہن!‘‘ ’’ذرا اونچی بولو۔۔۔۔۔۔‘‘ من موہن نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر وہ اس کے حلق ہی میں خشک ہوگیا۔ آواز آئی۔’’ میں جلدی آگئی۔۔۔۔۔۔ بڑی دیر سے تمہیں رنگ کررہی ہوں۔۔۔۔۔۔ کہاں تھے تم؟‘‘ من موہن کا سرگھومنے لگا۔ ’’آواز آئی کیا ہوگیا ہے تمہیں؟‘‘ من موہن نے بڑی مشکل سے اتنا کہا۔’’ میری بادشاہت ختم ہوگئی ہے آج۔‘‘ اس کے منہ سے خون نکلا اور ایک پتلی لکیر کی صورت میں گردن تک دوڑتا چلا گیا۔ آواز آئی۔’’ میرا نمبر نوٹ کرلو۔۔۔۔۔۔فائیو نوٹ تھری ون فور، فاؤ نوٹ تھری ون فور۔۔۔۔۔۔ صبح فون کرنا۔’’ یہ کہہ کر اس نے ریسیور رکھ دیا۔ من موہن اوندھے منہ ٹیلی فون پر گرا۔۔۔۔۔۔ اسکے منہ سے خون کے بلبلے پُھوٹنے لگا۔